ذرا ان آیات کے ترجمہ کو غور سے سنیں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ کہ قران کریم کے الفاظ الله پاک نے خود ادا فرماۓ ، جبریل کے زریعے
اور رسول کریم اس وقت خاموش رہ کر سنتے تھے ....صرف
اور وہ الفاظ آپ کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتے تھے اور پھر بوقت ضرورت ادا ہوتے تھے لوگوں تک پہنچانے کے لئے
:ترجمہ
نہ چلا تو اُسکے پڑھنے پر اپنی زبان تاکہ جلدی اُسکو سیکھ لے
وہ تو ہمارا ذمہ ہے اُسکو جمع رکھنا تیرے سینہ میں اور پڑھنا تیری زبان سے
پھر جب ہم پڑھنے لگیں فرشتہ کی زبانی تو ساتھ رہ اُسکے پڑھنے کے
پھر مقرر ہمارا ذمہ ہے اُسکو کھول کر بتلانا [۱۲
تفسیر علامہ شبیر احمد عثمانی
سورہ القیامہ
آیت نمبر سولہ
قرآن کریم کے الفاظ و معانی کا یاد کرا دینا ہمارے ذمّہ ہے
شروع میں جس وقت حضرت جبرئیلؑ اللہ کی طرف سے قرآن لاتے، ان کے پڑھنے کے ساتھ حضرت ﷺ بھی دل میں پڑھتے جاتے تھے۔ تاکہ جلد اسے یاد کر لیں اور سیکھ لیں۔ مبادا جبرئیلؑ چلے جائیں اور وحی پوری طرح محفوظ نہ ہو سکے۔ مگر اس صورت میں آپ کو سخت مشقت ہوتی تھی۔ جب تک پہلا لفظ کہیں اگلا سننے میں نہ آتا۔ اور سمجھنے میں بھی ظاہر ہے دقت پیش آتی ہوگی اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت پڑھنے اور زبان ہلانے کی حاجت نہیں ہمہ تن متوجہ ہو کر سننا ہی چاہیئے۔ یہ فکر مت کرو کہ یاد نہیں رہیگا۔ پھر کیسے پڑھونگا۔ اور لوگوں کو کس طرح سناؤ نگا۔ اس کا تمہارے سینے میں حرف بحرف جمع کر دینا اور تمہاری زبان سے پڑھوانا ہمارے ذمہ ہے۔ جبرئیلؑ جس وقت ہماری طرف سے پڑھیں آپ تو خاموشی سے سنتے رہیئے۔ آگے اس کا یاد کرانا اور اس کے علوم و معارف کا تمہارے اوپر کھولنا اور تمہاری زبان سے دوسروں تک پہنچانا، ان سب باتوں کے ہم ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد حضورﷺ نے جبرئیلؑ کے ساتھ ساتھ پڑھنا ترک کر دیا۔ یہ بھی ایک معجزہ ہوا، کہ ساری وحی سنتے رہے اس وقت زبان سے ایک لفظ نہ دھرایا۔ لیکن فرشتے کے جانے کے بعد پوری وحی لفظ بہ لفظ کامل ترتیب کے ساتھ بدون ایک زبر زیر کی تبدیلی کے فر فر سنا دی اور سمجھا دی، یہ اس دنیا میں ایک چھوٹا سا نمونہ ہوا یُنَبَّؤُا الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ کا یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ اپنی وحی فرشتے کے چلے جانے کے بعد پوری ترتیب کے ساتھ حرف بحرف بدون ادنیٰ فروگذاشت کے اپنے پیغمبر کے سینے میں جمع کر دے، کیا اس پر قادر نہیں کہ بندوں کے اگلے اور پچھلے اعمال جن میں سے بعض کو کرنیوالا بھی بھول گیا ہوگا سب جمع کرکے ایک وقت میں سامنے کر دے اور ان کو خوب طرح یاد دلا دے۔ اور اسی طرح ہڈیوں کے منتشر ذرات کو سب جگہ سے اکٹھا کر کے ٹھیک پہلی ترتیب پر انسان کو ازسر نو وجود عطا فرما دے۔ بیشک وہ اس پر اور اس سے کہیں زیادہ پر قادر ہے۔
0 comments:
Post a Comment